ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جوڑے کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا، جسے وہ محبت سے علی کہتے تھے۔

یہ بچہ اپنے والدین کی توقعات سے بہت مختلف تھا، کیونکہ وہ پیدا ہوتے ہی انگوٹھے کے برابر تھا۔

ماں اور باپ دونوں پہلے تو بہت پریشان ہوئے، مگر جلد ہی انہوں نے فیصلہ کیا،
“یہ خدا کی طرف سے ہماری قسمت ہے، اور ایک دن ہمارا بیٹا بڑا اور مضبوط بنے گا۔”

لیکن سال گزرتے گئے، اور علی بالکل نہ بڑھا۔ وہ ویسا ہی رہا، انگوٹھے کی طرح چھوٹا۔

ماں ہر شام کھانے کی میز پر اس کے لیے ایک چھوٹا سا پلیٹ رکھتی، جس میں ایک چائے کا چمچ سوپ ڈالتی، اور پانی کے لیے ایک قطرہ اس کے چھوٹے پیالے میں ڈالتی۔

جب تک وہ گھر پر ہوتے، سب کچھ ٹھیک لگتا، مگر والدین باہر کی دنیا کے خوف سے ہمیشہ علی کو نظروں سے چھپائے رکھتے۔

سالوں کے بعد، علی نے اپنی بیسویں سالگرہ منائی۔ وہ اب بھی انگوٹھے جتنا تھا، مگر اس کی آواز گہری اور حیران کن طور پر بلند ہو چکی تھی۔

اس کا کوئی دوست نہ تھا، اور یہ اداسی اسے ہمیشہ ستاتی تھی۔

ایک دن علی کے والد بازار جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ علی نے اصرار کیا کہ اسے بھی ساتھ لے جایا جائے۔

والد نے حیرت اور فکر کے ساتھ کہا،
“ہم نے آج تک تمہیں کبھی گھر سے باہر نہیں نکالا، میں تمہیں محفوظ کیسے رکھوں؟”

علی نے خوشی سے جواب دیا،
“مجھے اپنی جیب میں رکھ لیجیے، کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ کپڑے میں ایک چھوٹا سا سوراخ کر دیں، تاکہ میں سانس لے سکوں اور دنیا دیکھ سکوں۔”

والد نے علی کی خوشی کو دیکھتے ہوئے یہ تجویز مان لی۔

انہوں نے قمیض میں ایک چھوٹا سا سوراخ کیا اور علی کو جیب میں رکھ لیا۔ پھر وہ بازار کی طرف روانہ ہو گئے۔

سفر کے دوران، علی نے بہت سے نظارے دیکھے اور خوشی محسوس کی۔

ہوٹل پہنچنے کے بعد، رات کو کھانے کے دوران اچانک چوروں کا ایک گروہ اندر داخل ہوا۔ انہوں نے بندوقیں نکال کر سب کو لوٹنے کا حکم دیا۔

سب خوفزدہ تھے، لیکن اچانک ایک گہری اور بلند آواز گونجی:
“اپنی بندوقیں نیچے رکھ دو! ورنہ میں تمہیں پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دوں گا!”

چوروں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا، لیکن کچھ نظر نہ آیا۔

علی کی اس آواز نے چوروں کو یقین دلایا کہ کوئی مافوق الفطرت طاقت ان کے خلاف ہے۔

ڈرے ہوئے چور اپنی بندوقیں چھوڑ کر بھاگ نکلے۔

علی کے والد نے سب کو حقیقت بتائی اور علی کو جیب سے نکال کر سب کے سامنے پیش کیا۔

سب حیران اور خوش تھے۔ انہوں نے علی انگوٹھا کا شکریہ ادا کیا اور اسے ایک بہادر ہیرو قرار دیا۔

جب علی اپنے والد کے ساتھ گھر واپس آیا، تو ماں کو اس پر فخر ہوا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب علی کو دنیا سے کبھی نہیں چھپایا جائے گا۔

اس دن کے بعد، علی نے اپنے والدین کے ساتھ دنیا دیکھی اور نئی مہم جوئیوں میں حصہ لیا، ہمیشہ بہادری اور خوشی کے ساتھ۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here