حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کا بندر بن جانا – تفصیلی واقعہ
قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی کئی نافرمانیاں بیان کی گئی ہیں، جن میں سے ایک بڑا واقعہ “اصحابِ سبت” (ہفتے والے) کا ہے۔ یہ وہ قوم تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے دن مچھلی کے شکار کو حرام کیا تھا، لیکن انہوں نے دھوکہ دے کر اس حکم کی خلاف ورزی کی، جس کے نتیجے میں اللہ نے ان پر سخت عذاب نازل کیا اور انہیں بندر بنا دیا۔
📖 قرآن میں ذکر: اصحابِ سبت کا واقعہ
یہ واقعہ خاص طور پر سورۃ البقرہ، سورۃ الاعراف، اور سورۃ المائدہ میں بیان کیا گیا ہے۔
🔹 اللہ کا حکم اور بنی اسرائیل کی آزمائش
بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے دن کو عبادت کے لیے مقرر کیا تھا اور اس دن ہر قسم کے کام اور شکار سے منع فرمایا تھا۔ ان کا ایک قبیلہ، جو سمندر کے کنارے آباد تھا، مچھلی کے شکار پر گزارا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آزمائش کے لیے ہفتے کے دن مچھلیوں کو زیادہ ظاہر کرنا شروع کر دیا، جبکہ باقی دنوں میں وہ نظر نہیں آتی تھیں۔
:📖 قرآن میں فرمایا
“اور ان سے اس بستی کا حال پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی، جب وہ ہفتے کے معاملے میں حد سے بڑھنے لگے، جب ان کے ہفتے کے دن مچھلیاں پانی کے اوپر نظر آتی تھیں، اور جب ہفتہ نہ ہوتا تو وہ نہ آتی تھیں، اس طرح ہم ان کی آزمائش کرتے تھے کیونکہ وہ نافرمانی کر رہے تھے۔”
(سورۃ الاعراف 7:163)
🔹 بنی اسرائیل کا دھوکہ اور نافرمانی
یہ آزمائش ان کے لیے بہت بڑی تھی۔ بجائے صبر کرنے کے، انہوں نے دھوکہ دینے کا طریقہ اختیار کیا۔
انہوں نے ہفتے کے دن جال بچھا دیے، تاکہ مچھلیاں ان میں آ کر پھنس جائیں۔
اگلے دن (اتوار کو) جا کر وہ ان مچھلیوں کو نکال لیتے اور کہتے کہ ہم نے ہفتے کے دن شکار نہیں کیا۔
یہ درحقیقت اللہ کے حکم کو دھوکہ دینے کی کوشش تھی، جو سراسر نافرمانی تھی۔
🔹 تین گروہ: نافرمان، نصیحت کرنے والے، اور خاموش رہنے والے
:اس بستی میں تین طرح کے لوگ تھے
پہلا گروہ: وہ جو مچھلیوں کے شکار کا یہ حرام طریقہ اپنا رہے تھے۔1️⃣
2️⃣ دوسرا گروہ: وہ نیک لوگ جو انہیں مسلسل سمجھاتے رہے کہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرو۔
3️⃣ تیسرا گروہ: وہ لوگ جو خود نافرمانی نہیں کر رہے تھے، لیکن خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے اور نصیحت کرنے والوں سے کہہ رہے تھے کہ نصیحت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
:📖 قرآن میں ان کے مکالمے کا ذکر آیا
“اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا: تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کر رہے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا سخت عذاب دینے والا ہے؟ تو انہوں نے کہا: (ہم یہ نصیحت اس لیے کر رہے ہیں) تاکہ تمہارے رب کے ہاں معذرت پیش کر سکیں، اور شاید وہ پرہیزگار بن جائیں۔”
(سورۃ الاعراف 7:164)
🔹 اللہ کا عذاب: بندر بن جانا
جب یہ لوگ مسلسل نافرمانی پر قائم رہے اور نصیحتوں کو نظر انداز کر دیا، تو اللہ کا غضب نازل ہوا۔
:📖 اللہ تعالیٰ نے فرمایا
“اور یقیناً تم ان لوگوں کو جانتے ہو جو تم میں سے ہفتے (کے دن کی بے حرمتی) میں حد سے بڑھ گئے، تو ہم نے ان سے کہا: ذلیل و خوار بندر بن جاؤ۔”
(سورۃ البقرہ 2:65)
:📖 مزید فرمایا
“پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو بھلا دیا جو انہیں دی گئی تھی، تو ہم نے انہیں بچا لیا جو برائی سے روکتے رہے، اور ظالموں کو سخت عذاب میں پکڑ لیا، کیونکہ وہ نافرمان تھے۔ پس جب وہ اس چیز میں سرکشی کرنے لگے جس سے انہیں روکا گیا تھا، تو ہم نے ان سے کہا: ذلیل بندر بن جاؤ۔”
(سورۃ الاعراف 7:165-166)
اللہ نے انہیں بندر میں بدل دیا، جو کہ ذلت اور رسوائی کی سب سے بڑی شکل تھی۔
🔴 کیا وہ ہمیشہ بندر رہے؟
🔹 مفسرین کے مطابق، یہ لوگ تین دن کے اندر اندر ہلاک کر دیے گئے۔
🔹 وہ کھاتے، پیتے اور روتے تھے لیکن ان کی نسل آگے نہ بڑھی۔
🔹 یہ عذاب صرف ان لوگوں پر آیا جو اللہ کے حکم کی نافرمانی کر رہے تھے، جبکہ نصیحت کرنے والے لوگ بچا لیے گئے۔
📌 اس واقعے سے سیکھنے کے اسباق
✅ اللہ کی نافرمانی کرنے والوں پر سخت عذاب آتا ہے۔
✅ دھوکہ بازی سے شریعت کے احکام کو توڑنے کی کوشش بھی اللہ کی نظر میں جرم ہے۔
✅ برائی کو روکنے اور نیکی کی نصیحت کرنے والے لوگ اللہ کے ہاں کامیاب ہیں۔
✅ خاموش تماشائی بننے والے بھی عذاب میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
:💡 خلاصہ
یہ واقعہ بنی اسرائیل کے اس قبیلے کی نافرمانی اور دھوکہ دہی کی علامت ہے، جس پر اللہ نے سخت ترین عذاب نازل کیا اور انہیں بندر بنا دیا۔ یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ کے احکام کو معمولی نہ سمجھیں اور برائی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں، ورنہ عذاب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
📖 “پس نصیحت حاصل کرو، اے عقل والو!” (سورۃ الحشر 59:2)